Tuesday 5 April 2016

Interview of Dr Liaquat


تیس سال تک بطور ڈاکٹر خدمات انجام دی، تو کچھ نئے تجربات بھی ہوئے ہونگے۔ صحت کے شعبے میں کیا خرابی ہے؟ دیگر ممالک میں یہ شعبہ کس طرح سے مختلف ہے۔ کچھ ایسی چیزیں جس میں وزن ہو۔ ان کا نام صرف لیاقت نہیں ہوگا۔ پورا نام لکھیں۔ ان کا ذاتی طور رپ کوئی سوسائٹی میں کنٹریبیوشن ہو تو وہ لکھیں۔ لوگوں کا بیماری کے بارے میں اور سرکاری اسپتالوں کے بارے میں کیا رویہ ہے۔ وہ بھی لکھنا چاہئے۔ 
 انٹریو لفظ یہاں اردو میں بھی لکھنا چاہئے۔ 
 سوال جواب کے ساتھ یہ نشانی لگائیں جیسے پہلے نمبر سوال پر ہم نے کیا ہے۔

Interview with Dr. Liaquat
Hafiz Muhammad Talha

انٹرویو ڈاکٹر لیاقت
حافظ محمد طلحہٰ
2k15/MC/31/BS-2

تعارف: ڈاکٹر لیاقت نے1968میں لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنس سے ایم بی بی ایس کیا۔ اسکے بعد آپ نے شاہ بھٹائی ہسپتال میں خدمات انجام دیں۔ 1998میں آپ ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ آپ کا تعلق مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ اب آپ اپنی زندگی سکون سے بسر کر رہے ہیں۔ 

سوال: آپ نے اس پیشے کا ہی انتخاب کیوں کیا؟
جواب: در اصل اس پیشے کا انتخاب میں نے کچھ کم میرے والدین نے زیادہ کیا۔

سوال۔ آپ نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ایف سی پی ایس نہیں کیا۔ وجہ؟
جواب۔ میڈیکل کا زیادہ شوق نہ ہونے کی وجہ سے اسکی مزید تعلیم پر توجہ نہیں دی۔ مجھے درسِ نظامی کا شوق تھا مگر اپنے پیشے میں کوئی کسرس نہیں چھوڑی ۔

سوال۔ پاکستان کے ہسپتالوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب۔ اصل میں پاکستان میں ایمانداری نہیں اگرچہ یہاں اچھے ڈاکٹر ہیں مگر زیادہ تر پیسہ بٹور نے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ جب کوئی ڈاکٹر بنتا ہے تو اس سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ تو مادہ پرست ڈاکٹر ہے یا روحانی ڈاکٹر ہے میری رائے ہے کہ جب بھی کوئی ڈاکٹر بنے تو انکا ٹیسٹ ہونا چاہئے کہ مادہ پرست ڈاکٹر ہے یا خدمت کا جذبہ رکھتا ہے ۔

سوال۔ آپ ان ڈاکٹروں کے بارے میں کیا کہیں گے جو گورنمنٹ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ اچھا رویہ نہیں رکھتے بہ نسبت پرائیویٹ کلینک کے؟
جواب۔ خوفِ خدا نہیں ہے اگر خوفِ خدا ہو تو ہر سیٹ پر بیٹھنے والا ٹھیک کام کرتا۔ میرے خیال سے جتنے ڈاکٹر ، انجینئر بنتے ہیں وہ سب مادہ پرست ہوتے ہیں انھیں پیسہ چاہئے انکا نصب العین دینی تعلیم ہو تو خوف خدا ہوگا ورنہ یہ نظام درست کرنا مشکل ہے۔ 

سوال ۔ لوگوں میں خود دوا کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اسکی کیا وجہ ہے؟
جواب۔ پیارے پاکستان کے حالات اس کے ذمہ دار ہیں ۔ غربت اسکی ذمہ داری ہے۔ 

سوال۔ آج کل کونسی بیماری زیادہ پائی جاتی ہے؟
جواب۔ بلڈ پریشر کا مرض زیادہ عام ہے اور ہائی بلڈ پریشر اس میں زیادہ عام ہے یہاں تک کہ میرے پاس ایک آٹھ سال کی بچی آئی جو ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے فالج کا شکار تھی زیادہ تر ہائی بلڈ پریشر مردوں میں پایا جاتا ہے۔

سوال۔ ڈاکٹر اکثر اپنے حقوق کے لیے ہڑتال پر چلے جاتے ہیں جسکا خمیازہ مریضوں کو بھگتنا پڑتا ہے کیا آپکے مطابق یہ درست عمل ہے؟
جواب۔ ہر انسان کی اوّلین خواہش ہوتی ہے کہ اسکی زندگی میں آسائش ہو جنکو حاصل کرنے کے لیے وہ دن رات محنت کرتا ہے اگر وہ حاصل نہ ہو توآواز بلند کرنا اس کا حق ہے مگر حق کی خاطر اپنے فرض کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

سوال۔ بلڈ پریشر سے بچاﺅ کے لیے کن چیزوں کا خیال رکھا جائے؟
جواب۔ چکنائی، کولیسٹرول، فاسٹ فوڈ کا استعمال نہ کریں ، پروٹین ، وٹامن مچھلی کا استعمال اور روزانہ ورزش کریں۔ 

سوال۔ آپ ان عطائی ڈاکٹروں کے بارے میں کیا کہیں گے یہ ہماری قوم کے لیے صحیح ہیں یا غلط؟
جواب۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں عوام پڑھی لکھی نہیں ہے یہ ایک معجزے کی طرح ڈاکٹر ہوتا ہے اور ہاتھ میں شفا معجزے کی طرح آتی ہے۔ جس نے محنت کی ہے اور پڑھا ہے وہی صحیح ڈاکٹر ہے۔ 

سوال۔ ہمارے ملک کے مریضوں کو علاج کے لیے باہر کیوں جانا پڑتا ہے یہ سہولت ہمارے ملک میں کیوں نہیں ہے؟
جواب۔ ملک ہرمعاملے میں پیچھے ہے اسی لئے ہو سہولت نہیں پاکستان میں جو باہر موجود ہے۔

سوال۔ کسی بھی معاشرے کے لیے معالج کا کیا کردار ہونا چاہئے؟
جواب۔ معالج کو چاہئے کہ وہ خلوص سے کام کرے جب وہ جذبہ یہ سمجھے کہ مخلوق خدا کی خدمت کرنے سے آخرت میں درجات بلند ہونگے اور اجر ملے گا تب ہی معالج خلوص سے کام کرسکتا ہے۔ 

سوال۔ آپ صحت کے حصول کے بارے میں عوام کو کیا رائے دیں گے؟
جواب۔ عوام کو چاہئے کہ وہ کھلے مکان میں رہیں چاہے وہ کچے ہوں ، صاف اور بوائل پانی پئیں، سادا خوراک کھائیں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں عام آدمی کے لیے اس کو چاہئے کہ سادہ زندگی بسر کرے اور صفائی کا خاص خیال رکھے۔

No comments:

Post a Comment