Wednesday 21 September 2016

Article Muhammad Asim

What is ur point? Ur outline does not match with ur article.
Next time send file with proper file name and also write ur name in language in which u are writing.
 U filed it  after deadline
Article

تعلیم یافتہ بمقابلہ ہنر مند

Muhammad Asim Article BS Part-II

Roll No: 2K15/MC/46

سوچا جائے ہمارے ملک کے سائنسدان ، قانون دان، استاد وغیرہ تعلیم کے بجائے ہنر مند بن جاتے تو کیا ہوتا؟ پاکستان دنیا میں بہت کمزور ممالک میں شمار کیا جائے میرے مضمون کا مقصد ہر گز پاکستان کا ہنر مند افراد کی دل ازاری نہیں اور میں اس بات سے بھی واقف ہوا ان کی ضرورت اور اہمیت معاشرے میں کتنی ہوتی ہے لیکن اگر ان ہنر مند افراد کو کوئی اور کام دیا جائے تو اس کام کو نہیں کرسکتے اور کو اپنے ہنر کے علاوہ کوئی اور آتا ہی نہیں ہے جبکہ تعلیم یافتہ افراد زندگی بھر سکتے ہیں رہتے ہیں اور کوئی بھی نیا کام ہو اس باخوبی سکتے ہیں اور با آسانی سے انجام دیتے ہیں،
ہنر مند افراد کا تعلیم کی طرف دھیان اس لیے نہیں ہوتا کینوکہ ان کے تعلیم اخراجات کے لیے پیسہ نہیں ہوتے جس کے ذریعے وہ اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کرسکتے ۔ آئین پاکستان میں بھی ہے کہ حکومت تین سے 16 سال کے بچوں کی بنیاد ی تعلیم کو مفت فراہم کرے گی لیکن جب سرکاری تعلیمی معیار ہی ٹھیک نہ ہو تو والدین اپنی اولاد کیسے سرکاری اسکولوں ، کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجے گی ۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں اکثر والدین اپنی اولاد پرائیوٹ اسکولوں / کالج میں بھیجنے پر مجبور ہیں اور پرائیوٹ اسکولوں /کالج کی فیس بھرنا ان والدین کے لیے شدید معشیت کی وجہ بنتی ہیں اور اکثر غریب والدین اپنی اولاد کو محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں صرف حیدرآباد میں ہی غریب والدین اپنے بچے کو 4سے5 سال کی عمر میں کام پر لگا دیتے ہیں اور تقریباً پاکستان میں 51 لاکھ پڑھنے کے بجائے کام کاج میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے آنے والی قوم بھی محنت مزدوری میں لگ جاتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5 کروڑ 72 ہزار افراد محنت مزدوری کرتے ہیں جو دنیا کی بلند ترین انسانی قوتوں میں سے ایک ہیں اور اس خوائندگی کا تناسب بھی60 فیصد ہیں جوکہ بہت ہی کم ہیں جبک ہر سال 445000 یونیورسٹی گریجوٹ ہوتے 10000 کمپیوٹر سائنس گریجوٹ ہوتے ہیں۔
تعلیم کے لیے خرچ کی جانے والی رقم کا بجٹ 2.1 فیصد ہوتی ہے۔
دیہی علاقوں میں تعلیم نہ ہونے برابر ہیں اور خاص طور پر عورتوں کی تعلیم شرح 20 فیصد ہیں اگر ماں پڑھی لکھی ہوگی تو وہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرسکے گی ۔ بچے کی اصل تربیت اس کے اپنے گھر ہی سے ہوتی ہے وہ جانتی ہوگی تعلیم کی اصل اہمیت کیا ہے نہ کہ وہ اپنی اولاد کو ہنر سیکھنے یا محنت مزدوری کے تعلیم یافتہ نہیں اگر وہ تعلیم یافتہ ہوجائے تو پاکستان کو نہ جانے کتنی ہی اقبال، ڈاکٹر عبد القدر، ڈاکٹر عبد السلام اور کتنے ہی بھٹو مل جائے اس ہمیت چاہیے کہ صرف ہنر مند نہ رہے بلکہ ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہوجائے اور اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچادینے۔

Article Siraj-ul-Haque


 We need 600 words, this one is 312 words.
File name is not correct. How to send file, see FB group
 No proper figures and argument, its too vague and general

Article  Siraj-ul-Haque

سنڌ ۾ غربت ۽ بيروزگاري  جي صورتحال
سراج الحق
          ملڪي معيشت ۾ 71% حصو ڏيندڙ سنڌ جي صورتحال اڄ آفريڪا جي ڪنهن ملڪ جيان لڳي ٿي. زراعت، معدني وسيلن سان مالامال سنڌ جا ماڻهو بک ۽ بيروزگاري سبب اڄ پنهنجا ٻچا وڪڻڻ تي مجبور آهن.
          اڄ جڏهن دنيا سائنس ۽ ٽيڪنالوجي جي جديد دور ۾ داخل ٿي چڪي آهي، ڏينهون ڏينهن نيون ايجادون ٿين پيون، اتي هن ديس جا ماڻهو زندگي جون ٻيون ضرورتون ته پري پر ٻن ويلن جي ماني لاءِ به ڪيترن ئي پريشانين ۽ تڪليفن کي منهن ڏين ٿا. گذريل ڪجھ سالن کان ڪوئلي، فطرت جي شاهڪار حسن ۽ ٻين قدرتي وسيلن سان مالامال سنڌ جي سڀ کان وڏي ضلعي ٿرپاڪر ۾ بک ۽ بيمارين سبب ٻارڙن جو موت روز جو معمول بڻيل آهي. ان کان علاوه سنڌ جي ٻين علائقن جهڙوڪ ڪاڇي، ڪوهستان ۽ جابلو پٽي جا ماڻهو پڻ 21هين جي صديءَ جي مڙني سهولتن کان محروم آهن. تعليم ۽ صحت جهڙين بنيادي سهولتون ته پري جي ڳالهه آهي پر انسان جي جياپي پاڻي لاءِ به ٿر سميت، سنڌ جي مختلف علائقن جا ماڻهو ڪيترن ئي تڪليفن کي منهن ڏئي رهيا آهن. اهڙي صورتحال ۾ رياست سميت سماج جي سڀني باشعور ماڻهن تي ذميواري عائد ٿئي ٿي ته هو پنهنجو ڪردار ادا ڪن. ڇاڪاڻ ته غربت ۽ بيروزگاري مان ئي سماج جا ٻيا ڏوهه جنم وٺن ٿا، چيو ويندو آهي ته غربت سڀني براين جي ماءُ آهي، بيروزگاري جي شرح وڌڻ سبب ئي ڏوهن ۾ پڻ اضافي ٿي رهيو آهي. اهڙي صورتحال ۾ سنڌ جو نوجوان مايوسين ۾ ڌڪجندو پيو وڃي. ان سڄي صورتحال ۽ پسمنظر جي پٺيان تبڪاتي نظام جو هٿ آهي. جنهن سبب چند جاگيردار ۽ سرمايدار گھراڻن جو پوري زراعت ۽ صنعت تي قبضو آهي ۽ اهي استحصالي قوتون ڪڏهن به نه چاهينديون ته سنڌ جو مڊل ڪلاس طبقو اڳتي اچي ۽ غربت جي زنجير کي ٽوڙي دنيا سان ڪلهي ۾ ڪلهو ملائي بيهي.
Siraj-ul-Haque

Roll No. # 2k15-MC-121

حیدر آباد میں رونما ہوتی تبدیلیاں

Edited

حیدر آباد میں رونما ہوتی تبدیلیاں 

آرٹیکل 
محمد وقاص راجپوت 
بی ایس پارٹ ٹو رول نمبر 61

شہر حیدر آباد میں بھی پچھلے کچھ عرصے سے تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ حالیہ تبدیلیوں میں شہر کی سڑکوں کی مرمت سر فہرست نظر آتی ہے۔ سڑکوں کی اس مرمت کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے مختلف مسائل بھی سامنے آئے ہیں جن میں خراب سڑکوں کی وجہ سے لوگوں کو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑا ۔

شہرکے مختلف علاقے جن کی سڑکیں خستہ حال تھی۔ اب وہ پہلے سے بہتر دکھائی دینے لگی ہیں۔ ان علاقوں میں لطیف آباد ، حیدر آباد، ہیرا آباد، قابل ذکر ہیں۔ پہلے ان علاقوں سے شہریوں کا گزرنا بہت ہی مشکل کام تھا جوکہ اب سڑکوں کی مرمت کی وجہ سے بہتر دکھائی دیا ۔پہلے سڑکیں انتہائی خراب اور ٹوٹی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی تباہ کن تھا سڑکیں مکمل طور تباہ حالی کا شکار تھیں جن کی وجہ سے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے مختلف مسائل کاسامنا کرنا پڑا ۔ 

پہلے سڑکوں پر گٹر کے ڈھکن تک نہ ہوتے تھے جس کی وجہ سے کافی حادثات دیکھنے میں آتے تھے جو کہ اب بمشکل دکھائی دیتے ہیں اور خاص طور پر برسات کے دنوں میں شہر حیدر آباد کی سڑکیں بد حال ، سیوریج کے نظام کی وجہ سے سمندر کا سماء سا باندھ لیتی تھیں اور ا ن سڑکوں پر بڑے بڑے کھڈے اور کھلے گٹر لوگوں کی جان کو آجاتے تھے، اور جس کی وجہ سے بہت سے حادثات ہو جاتے تھے ۔ مگر اب حالات پہلے کی بنسبت بہتر دکھائی دیتے ہیں۔
حیدر آباد میں ترقیاتی کام کے دوران ماحولیاتی آلودگی بھی پیدا ہوئی اور ساتھ ساتھ ٹریفک جام جیسی صورت حال بھی پیدا ہوئی جب حیدر آباد میں ترقیاتی کام تیزی سے جاری تھے اور سڑکوں کی مرمت کی جا رہی تھی اس وقت ایک سڑک بناتے ہوئے اس سڑک کا ٹریفک دوسری سڑک پر منتقل کر دیتے تھے جس کی وجہ سے ٹریفک جام کی صورت حال پیدا ہوتی ۔
ان ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ حیدر آباد میں نئے مالز بھی بنائے جا رہے ہیں جس میں داؤد مال، میگنم مال ، مال آف حیدر آباد اور ینٹ مال وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ 
حالیہ دنوں میں بو لیورڈ مال کی اوپننگ کے بعد حیدر آباد کی عوام بڑی تعدد میں بو لیورڈ مال کی طرف سفر کرتی دکھائی دیتی ہے جسکی خاص وجہ Cinepexسینما ہے جو شہریوں کے لئے کشش کا باعث بنا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں ایسے مزید مالز حیدر آباد کی زینت بنیں گے جس سے حیدر آباد کی قسمت میں چارچاند لگتے دکھائی دیتے ہیں۔ مال کے ساتھ ساتھ سپر مارکیٹ بھی حیدر آباد میں بنائی جا رہی ہیں اور کچھ بن بھی چکی ہیں جن میں میکس بچت، داؤد مارٹ اور بیگ مارٹ شامل ہیں۔
دیکھا جائے تو مارٹس کی وجہ سے دکانوں کی سیل پر خاصا اثر پڑا ہے کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں ہر آدمی دو پیسے بچانا چاہتا ہے اور اسی لئے مارٹس کا رخ کرتا ہے ۔ مارٹس میں پیسے کی بچت کے ساتھ ساتھ اچھی کوالٹی کی چیزیں ایک ہی بلڈنگ کی نیچے سب سامان دستیاب ہوتا ہے۔ 
اور تو اور ریسٹورینٹ بھی اس دوڑ میں شامل ہیں جو حیدر آباد کی رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں جن میں لاموش ، لال قلعہ، رائل تاج، روف ٹاپ اور بہت سے بڑے انٹرنیشنل معیار کے ریسٹورنٹ موجود ہیں جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ان بڑے بڑے ریسٹورنٹس کی تاب لاتے ہوئے فاسٹ فوڈ کا رجحان بھی پروان چڑھتا دکھائی دیتا ہے ۔ حیدر آباد کے مشہور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں مرچی360، آکسیجن ، شمع تکہ ، پے ۔کے جیسے ریسٹورنٹس شہر کے مختلف علاقوں میں دکھائی دیتے ہیں اور یہ تمام تبدیلیاں شہر حیدر آباد کی رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں میں شامل ہیں۔ 
محمد وقاص
2K15/MC/61 

Tuesday 20 September 2016

Article Nimra Aamir Pathan

Article
 by Nimra Aamir Pathan

Class: BS-II (2nd Semester)
Roll No. 2k15/MC/103
Types of Middle Class in Society and their Lives


Our society is based on three different dimensions that includes, upper class, lower class and middle class. Upper class spend lives easily they get all the luxuries by birth through inheritance while, lower class spend their lives in deprivation and they do not even get their basic needs. Talking about middle class, they are sandwich class. These white collar workers have more money than those below them on the social ladder but less than those above them. They divide into two levels according to wealth, education and prestige. The lower middle class is often made up of less educated people with lower incomes, such as managers, small business owns, teachers and secretaries. The upper middle class is often made up of highly educated business and professional people with high income, such as doctors, lawyers, stockbrokers and CEOs. They are not living luxurious nor they are deprived. They try to get betterment in their financial state, they are depressed financially as well as psychologically.

Middle class Pakistani adults constituted 0.9% of the world wide middle class population. Pakistan has 28th largest middle class in the world. Middle class in Pakistan consist of over 6.27 million people according to Credit Suisse, a global financial services company. The study revealed that 14% of world adults constituted the middle class on 2015 and held 32% of world wealth the share of middle class adults in Pakistan’s total adults population 111 million was 5.7% in 2015 as opposed to in India’s 3% and Australia’s 66% in 2015, more than one third of Pakistani population can be categories as middle class.

Agricultural based middle class depends on feudal. They do not even get one-fourth share of crops. They work in the farms from dawn to dusk but do not get fruitful result of their hard work. They are always in fear. Sometimes they are afraid of their so called masters, the feudal to whom the land belongs, and sometimes fears from the natural disasters, like rains, storms, floods. Due to these natural disasters their crops are damaged and they are unable to get their share.

Civil services based society depends on governmental salaries. They can be assigned in the jobs like corporate and etc. If we compare Europe with Asia European corporate get more income as compared to Asian. Here, in Pakistan the civil based society is uncertain as they are reliant on the governmental salaries. If any mishap occurs, they are fired or terminated. More than three months, they do not even get salaries and hence face the crisis. They become unable to fulfil their basic needs and cannot pay fee of their children. So, the child of middle class family is being deprived of the education.

People of business based middle class are commonly entrepreneurs, consultants or shopkeepers. They are not dependent nor do they have fear of any authorities like governmental officials or feudal. They start their business on a small measure & work on it. They can set small hotels, industries etc. and get profit from them. They produce the commodities which are used by all classes through the profit & increment of their shares in society. They can easily increase their business. For example, Arif Builders and Developers, a well-known business work. He must has started his work on a small industry and through hard work he gain much and much profit. Now, he is a person and his business has got a huge fame and recognition in Pakistan. In the same way, J. has also started his short business and now he is known as a great designer.

Through all the above facts and discussions, we can conclude that agricultural based middle class has not communication opportunity and they are dependent on feudal in the same manner, civil services based society also depends on governmental salaries but they have communication skills as well as a provided opportunities to communicate through corporation while business based and self-employed middle class does not depends on any one.

Our society is facing crisis due to this fact that middle class society is not getting opportunity to communicate with the world. Those who are farming crops are the victims they are not provided better facilities to communicate and while business class earn on their own and through their business they communicate with each class though it is upper class or middle class. They can change the society because they have enough potential as they are getting profit and are progressing they can also assure the progress of society and can work for its betterment.

Article Subhan Jamali

u should start with some current reference.
U should have discussed it with some one from forest department and seen that what are current policies of govt and how they are  being violated
Article
سنڌ ۾ وڻن جي واڍي ۽ ٿيندڙ نقصان
Abdul Subhan Jamali BS-II Roll 05
وڻ اسان جي معاشري ۾ وڏي اهميت رکن ٿا، جنهن ۾ قدرت جا هزارين فائده رکيل آهن، جيئن وڻ سائنسي طور تي انسان لاءِ آڪسيجن پيدا ڪن ٿا ۽ اسان جي ماحول کي بهتر ۽ صاف بڻائڻ ۾ پڻ اهم ڪردار ادا ڪن ٿا ان سان گڏ وڻ اسان لاءِ طبي طور به تمام گهڻو فائديمند آهن، وڻ فطري سونهن ۾ به پنهنجو مٽ پاڻ آهن، حديث ۾ آهي ته ”وڻ صدقه جاري آهي“ وڻ معاشي طور تي به ملڪ لاءِ فائديمند آهن پر ان سان گڏوگڏ  چوپائي جانور لاءِ ، تيل، واپار، ماحول، برساتن ۽ پکين لاءِ اجهي جو فائدو پڻ آهن.
هڪ اندازي موجب ڏٺو وڃي ته دنيا جي مٿاڇري تي صرف 30 سيڪڙو ٻيلا آهن، دنيا ۾ 3 ملين ماڻهو جيڪي ابن ڏاڏن کان ٻيلن ۾ رهن ٿا ۽ دنيا ۾ 2 بلين ماڻهن جي  آمدني، کاڌي پيتي، پاڻي ۽ اجهي جو دارومدار ٻيلن تي آهي.اسان جي ملڪ ۾ اندازي موجب 4.5 سيڪڙو ٻيلا آهن، جڏهن ته دنيا جي حساب سان 20 سيڪڙو هجڻ گهرجي، اسان جي ملڪ ۾ سالانه 22 ملين ڪيوبڪ فوٽ تمر ڪاٺ جي ضرورت آهي، جڏهن ته اسان جي ملڪ ۾ صرف 11 ملين ڪيوبڪ فٽ تمر ڪاٺ پيدا ٿئي ٿو، يعني ٻيڻ تي کوٽ آهي، ٻين ملڪن جي حساب سان اسان جي ملڪ ۾  تمام گهٽ ٻيلا آهن، ڏٺو وڃي ته ملائيشيا ۾ 56.5 سيڪڙو، سريلنڪا ۾ 42.4 سيڪڙو، انڊيا ۾ 23.7 سيڪڙو ۽ چائنا ۾ 17.7 سيڪڙو ٻيلا آهن، پاڪستان ۾ ٻيلن جي  گهٽ ٿيڻ جو سبب اهو به آهي ته اسان جي ملڪ جي زمين تقريبن60 سيڪڙو کان 70 سيڪڙو ڦٽيل آهي، ڪلر، سيمي، پاڻي جي کوٽ،  ليز ۽ ٻين سببن جي ڪري به ٻيلن ۾ گهٽتائي آئي آهي.
مجموعي طور تي سنڌ ۾ ٻيلن جي ايراضي 2785000 ايڪڙ (2.785 ملين) ايڪڙ آهي، جنهن ۾ 500 اسڪوائر سنڌو درياهه جي پاسي ڪشمور کان ڪراچي تائين آهن، سنڌ ۾ ٽوٽل 86 ٻيلا موجود آهن، جنهن ۾ اوڀر کان 61 ۽ اولهه کان 25 ٻيلا آهن، ڏٺو وڃي ته ٻيلن جي واڍي گڊو کان سکر بئراج تائين 85 سيڪڙو آهي، جڏهن ته وڻ لڳائڻ جو عمل صرف 9 سيڪڙو آهي جيڪو انتهائي نقصانڪار ثابت ٿي سگهي ٿو.
اندازي موجب سنڌ جي ڪل 8 سيڪڙو ايراضي تي ٻيلا آهن، ڏٺو وڃي ته ٻين صوبن، علائقن جي ڀيٽ  موجب گهٽ آهي، ڇو ته ڪشمير ۾ 6.5 سيڪڙو ، بلوچستان ۾ 14 سيڪڙو، ناردرن ايريا ۾ 15.7 سيڪڙو، خيبرپختونخواهه ۾ 40 سيڪڙو ۽ پنجاب ۾ 14.4 سيڪڙو ٻيلا آهن، جيڪو نه صرف سنڌ ۾ وڻن جي گهٽتائي بلڪه گهڻي قدر واڍي کي به ظاهر ڪري ٿو.
گذريل ڪجهه وقت کان بي رحم هٿن هٿان وڻن کي عبرت جو نشانو بڻايو پيو وڃي، وڻن کي وڍيو پيو وڃي ۽ اسان جي معاشري مان فطري سونهن کي ختم ڪيو پيو وڃي، جيڪو انتهائي افسوس جوڳو عمل آهي ۽ ان عمل سان ڪيترائي نقصان پڻ ٿين ٿا، جهڙوڪ گرمي جو وڌڻ، ٻوڏ، برساتن جو نه پوڻ ۽ ڏُڪار وغيره.

وڻن جي واڍي کي روڪڻ لاءِ اسان سڀني کي پنهنجي حصي جو ڪم ڪرڻو پوندو ۽ ان سان گڏوگڏ حڪومت کي به گهرجي ته وڻن جي واڍي ۽ ليز تي زمين ڏئي ٻيلا ختم ڪرڻ خلاف سخت قدم کنيا وڃن، ٻيلي کاتي مان ڪرپشن ختم ڪري ايماندار آفيسر آندا وڃن ۽  سموري کاتي کي فعال بڻايو وڃي، ٻهراڙي جي علائقن ۾ غريب ماڻهو پنهنجن ٻچن جي پيٽ گذر لاءِ وڻ وڍي زندگي جو گاڏو  هلائي رهيا آهن جنهن عمل کي روڪيو وڃي.ته جيئن سنڌ ۾ قدرتي سونهن جيڪا وڻن جي ڪري هئي سا بحال ٿي سگهي.

Article by Sobia Saleem


Article by
Sobia Saleem
BS – II.
2k15/MC/84
“Social Sciences
Common Perceptions of Society &
Contemporary Problems.”
Several of the people perceptions, I’ve witnessed in recent years have compelled me to pen down on this important point, normally its prevailing thinking in our society that social sciences have no scope, no future; and those who pursuing it as their higher studies are either incompetent to get into any Medical or Engineering college or they are not that much Well Off to make themselves enough capable for these “holy studies”
Normally, social science students are mocked by society, they being criticized or have to face discriminating behavior but have ever our society bothered to realize importance of social sciences in society…? Have society ever tried to look upon the importance and existence of these subjects. In early days, social sciences had vital role in society and social science students had enjoyed foremost place in society, we have examples of Aristotle, Plato, Alexander Hamilton, Adam Smith, Max Weber, Henry Kissinger etc…? In current era, why society is way too much ignorant about these above stated Prominent Social Scientists..? Did they all study Engineering, Medical, Business? Definitely answer is NO! I don’t argue, that natural sciences are way too mainstream but the point which I’m trying to convey is Natural and Social both sciences are working together to make this universe a better place to live in. For example! Social scientists indicate the problem, need of society as social sciences are nearer to society, its study of people behavior, their needs and society and after being indicated by social scientist, natural science practitioners start working to find out its solution, most inventions of past would had become possible because when people started realizing their needs, so in this regard we can say that natural and social sciences are not apart but it both are working together for bring positive change it society.
Yearly, Hundreds of thousands students pass their intermediate examinations in pre-engineering, pre-medical, commerce, arts. If we look at the results of only 2015, then  58.85% students passed their intermediate examinations from Federal board and 61.67% from Sindh Board, 70.21% from Pubjab board, 60% from KPK and 59.32% from Balochistan board. Mostly those students were of Pre-medical and pre-engineering students. If we only look up at the results of Karachi or Hyderabad broad then in 2015, 12,733 candidates pass HSC exam - Pre-engineering, Science & General groups, did all joined medical or engineering colleges? Do we have enough seats to allocate all students in medical/engineering colleges? Do we have enough capacity to serve them…? Definitely answer is once again NO….! If We drop a gaze at our Jamshoro city, MUET has only 1000 seats yearly to allocate students per year, similarly LUMHs has only 263 seats where as University of Sindh admitted 3000 students per years. As per presented data, If passing out students don’t get departments according to their choice so what would they prefer…? Instead of getting into any social science/art department does society wants them to sit back in home or quit education…? Society is lacking to know that “Social Sciences mean inventing certain bran, Human we can understand.”
The social sciences, like the physical or biological sciences, are intellectual subjects, directed primarily toward understanding, rather than action. It would of course be a curious kind of “understanding” that had no implications for action, and this is perhaps especially true for the social sciences. Nevertheless, there is a difference between enlarging one’s understanding of human behavior and society on the one hand and trying to solve a social problem on the other. The social sciences are distinct from social problem solving, but each can contribute to the other.
                                                                                                        Its common perception in our society that if a person is pursuing social sciences for his/her higher studies he must had no idea yet decided what to do with their lives and it’s for all those whose premature frustrations led them into sterile alleys of confrontation.  Society needs to understand that Social Scientists are expertly trained to identify complex reasoning and ambiguities, showing what people find meaningful about work and what they expect from their employers.
Stereotype thinking of society says that if one is studying Engineering, Medicine, CA, Business etc then one has pursuing worth doing and that’s assurance of its bright future, usually due to this stereotype thinking even talented souls of social sciences have to go through discriminative behavior which proved as negative vibes for them, what normally people think that only medical, engineering can make you a productive aspect of society otherwise you’re waste of society if you’re pursuing not this stereotype thinking, but where people lacking here is that why don’t they understand that being average student in subjects of not ones choice why not being a star student of one’s own choice…?

The social sciences can help to make us aware of threats to our freedom while giving us greater power to control our own behavior in constructive ways, helping us to be more tolerant of diversity, to learn to live together in greater harmony, less violently and more satisfyingly. If we are to reap these benefits, however, we must work at understanding ourselves and our society, at perfecting a social science that is capable of meeting the challenges of our future.    
Well, it’s a vast debate, which never gets any fruitful result yet, still hoping for appropriate behavior of society towards this pathetic issue and deliberately waiting for that day when stereotype thinkers will gradually start realizing that “Man, that molecule of society,  is the subject of social science”

مسرت ٽالپر



سنڌ ۾ اسڪول جي ناڪامين ۾ ڪميونٽي جو رول
                                    مسرت ٽالپر
ڪلاس                                BS-II
 رول نمبر                                      2K15/MC/65
تاريخ ۾ اگر سنڌ تي نظر وجھي وڃي ته اڄ جي سنڌ هر لحاظ کان بهتر آهي. سنڌ جي عوام اڄ ڪيترن ئي سهولتن سان زندگي گذاري رهي آهي. تاريخ ۾ ڏٺو وڃي ته مشڪل سان ئي ڪنهن علائقي ۾ اسڪول موجود هئا جو پري پري جا رهواسي ميلن جو سفر ڪري تعليم حاصل ڪرڻ ايندا هئا. پر اڄ ترقياتي وقتر سان گڏ اسڪول جي نه هئڻ جي ڪابه پريشاني نظر نٿي اچي. هر ڳوٺ، علائقي ۾ اسڪول نظر ايندا.  پر افسوس جي ڳالهه اهيا آهي ته انهن اسڪولن مان اڌ کان وڌيڪ ويران عمارت آهن جنهن کي ڏسڻ وارو به ڪو نه آهي. ۽ جيڪي  بچا ڪچا آهن انهن ۾ ڪمزور تعليمي نظام، استادن  جي غير حاضري ۽ بنيادي سهولتن جو مسئلو درپيش آهي. جنهن جي وجه سان سنڌ جي عوام تعليم جي معاملي ۾ تمام پويان آهي رهجي ويئي آهي.
سنڌ ڪيترن ئي قدرتي وسيلن سان مالا مال آهي ان جي باوجود به سنڌ جي عوام کي بيروزگاري جو منهن ڏسڻو ڇوي ٿو  جنهن جي بنيادي وجه سنڌ جو بگڙيل تعليمي نظام آهي. اهي برباد ۽ ناڪام ٿيل اسڪول جو عمارتون آهن جن کي جاگيردارن پنهنجي ذاتي ملڪيت سمجھي پنهنجي ذاتي ڪمن لاءِ استعمال ڪري رهيا آهن.
اسڪول جي ناڪامي ۾ سنڌ ڪميونٽي به اهم ڪردار ادا ڪري ٿي ته سنڌ جي  عوام جيڪا بيروزگاري کان تنگ اچي خودڪشي جون ڪامياب ڪوششون سرانجام ڏي ٿي، جتي لوڊشنڊنگ  سان پنهنجو ڪاروباري نقصان ڏسي روڊن تي حڪومت خلاف خطرناڪ قسم جا احتجاج ڪري ٿي، جتي ٻن ڏينهن لاءِ پاڻي ڇا بند ڪيو وڃي ٿو اتي اهيا عوام سک جو ساهه کڻڻ لاءِ تيار ڪونهي پر اهي ماڻهو اڄ ڇو انهن اسڪولن جتي ترقي جي راهه ٿي ڏيکاري وڃي انهن جي ناڪامين خلاف ڇو گڏ ٿي احتجاج نٿي ڪري؟ ڇو انهن زميندارن خلاف آواز نٿي بلند ڪري؟ جيڪي اسڪولن کي پنهنجي ذاتي ملڪيت سمجھڻ ٿا. اهيا سوچڻ جي ڳالهه آهي. ڪميونٽي ڇو خاموش آهي؟ اگر سنڌ جي عوام ائين ئي خاموش رهي ته سنڌ ۾ تعليمي نظام بلڪل ئي ختم ٿي ويندو ۽ سنڌ ۾ بيروزگاري جي ثقافت عام ٿي ويندي.
استاد علم جا سرچشما هوندا آهن قومن جي ترقي ۾ استادن جو وڏو ڪردار هوندو آهي. استاد هڪ اهڙي شخصيت آهي جنهن کي هميشه عزت ۽ احترام جي نظر ملي ٿي پر افسوس جي ڳالهه اها آهي ته تعليم يافته استاد اسڪول جي بربادين ناڪامين ۾ برابر جا شريڪ آهن. استاد جيڪي هفتن ۾ اسڪول جو منهن ڏسڻ وارا، جن کي جڏهن پگهارون نه ملنديون ته روز سرڪاري آفيسن اڳيان پنهنجي حقن لاءِ بک هڙتالون ڪندا  آهن اهي پنهنجي حق لاءِ وڙهڻ وارا پنهنجون زميداريون پوريون ڪرڻ بجاءِ اسڪول نه ايندا جنهن جي وجه اسڪول ۾ داخل ٿيڻ باوجودکان ٻار تعليم  محروم آهن.

هر ڪامياب معاشري  جي بلندي جي وجه تعليمي ادارا هوندا آهن. جتي انهن کي ڪاميابي ڏانهن راهه ڏيکاري ويندي آهي. اگر انهن تعليمي ادارن کي به ڪنهن قسم جو نقصان پهچندو ته قومن جي ڪاميابي ۾ رڪاوٽ ايندي انهي مسئلي کان بچڻ لاءِ قومن جي هر هڪ فرد کي گھرجي ته ادارن جي بچاءُ لاءِ سخت قدم کڻن ته جيئن تعليم جي بربادي کان بچي سگھجي ۽ پنهنجي ملڪ کي خوشحال و آباد رکجي.

Monday 19 September 2016

Ahsan Ali - Article



Ur topic is about violence injustice with urban women. U have not specified how it is different from women facing in rural areas? 

Figures u quotes should be with reference from which report etc u have taken. 

What are the basis of this violence in urban areas too? 
There should be some current reference
write ur name etc in urdu also in the file. 
Observe paragraphing.

Name: Ahsan Ali - Article - BS Part-II
Roll No. 2K15-M.C-09
شہری علاقوں میں عورتوں کے ساتھ سلوک
عورت۔۔۔۔عورت۔۔۔۔۔۔عورت۔۔۔۔۔۔۔بری، اچھی ،بے وفا، باوفا ایسی ویسی اورخدا معلوم کیسی کیسی ۔۔۔۔عورت معاشرے میں ایک تبدیلی یا انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ا سلام سے قبل عورت کے ساتھ ظلم و بربریت کی جاتی تھی وہ انکے جاہل ہونے کی علامت تھی لیکن اسلام کے بعد عورت کو اس کا مقام بتلایا گیا اور لوگوں کو اس کی اہمیت بتائی گئی پھر بھی آج جدید اور ترقی یافتہ معاشرے میں عورت کے ساتھ کوئی قابلِ تعریف رویہ اور سلوک برتانہیں جارہا عورت کو ہر دور میں ظلم سے نواز ا گیا آج بھی ہمارے معاشرے میں جاہلانہ رسومات رائج ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد سے عورتوں کے حقوق کے لئے کوئی غیر معمولی اقدامات نہیں کئے گئے قانون تو بناد ئیے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا ہمارے معاشرے میں دو اقسام کی عورتیں ہیں ایک گاؤں دیہات میں رہنے والی اور شہری علاقوں میں بسنے والی ایک عام تاثر ذرائع ابلاغ کی جانب سے دیا جاتا ہے کہ د یہاتی عورت کے ساتھ بہت ظلم ہورہا ہے اور شہری عورت پُر سکون زندگی بسر کرتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی بھی مرد عورت کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سیکھتاخواہ وہ دیہاتی عورت ہو یا شہری سلوک کسی کے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا جارہا پاکستان کے شہری علاقوں میں عورتوں پر تشدداور ظلم کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں اور ان میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے عورت صدیوں سے اپنے تشخص کی تلاش میں سر گرداں ہے۔ عزت کے نام پر قتل، کاروکاری اور ونی جیسی فرسودہ رسومات پر اب بھی زور و شور سے عمل کیا جارہا ہے پارلیمینٹ سے خیرت کے نام پر قتل ہونے سے بچانے کیلئے قانون تو پاس کرالیا گیا لیکن اس کے باوجود بد سلوکی ، زیر حراست تشدد ماورائے عدالت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کی روز افزوں ترقی کی بدولت تمام واقعات عوام کے سامنے پیش ہورہے ہیں اس کے باوجود عورتوں کا استسلال اب بھی جاری ہے خاندان میں تشدد صرف غریب اور جاہل گھرانوں تک محدود نہیں بلکہ پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی بچیوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک برتا جارہا ہے ۔ عورت شادی سے پہلے باپ اور بھائی کی ملکیت ہوتی ہے اور شادی کے بعد شوہر کی ۔70%سے90%عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں صورتحال یہ ہے کہ شہری علاقوں میں ہر دو گھنٹے بعد ایک عورت زیادتی کا شکار ہوتی ہے روزانہ 5عورتیں قتل کردی جاتی ہیں ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010سے 2016کے درمیان 789تیزاب گردی کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں کثیر تعداد کا تعلق لاہور سے ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک اور چشم کشاہے یہ واقعات شہری علاقوں سے زیادہ رپورٹ ہورہے ہیں ۔ حال ہی میں معروف اداکارہ کو بھی تیزاب گردی کا سامنا کرنا پڑا ۔شہری علاقوں میں ان واقعات کی سب سے بڑی وجہ بھی خود ہی عورت ہے ۔گھریلو معاملات ماں بیٹی سے رائے لینے کو اپنی بے عزتی محسوس کرتی ہے اگر لڑکی کا کہیں رشتہ کرانا ہے تو اس سے رائے پوچھنا عیب سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ بات شریعت سے ثابت ہے کہ عورت سے کسی معاملات میں رائے لینے کی ممانعت نہیں ہے جیسا کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کو وحی آئی کہ آپ حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے کردیں لیکن آپ ﷺ نے اس کے باوجود حضرت فاطمہؓ سے اجازت طلب کری کیونکہ عورت کا مقام بتانا تھا عورتوں کو انکے حقوق سورۃ النساء کے مطابق دئیے جائیں اور دیگر مذاہب میں بھی عورتوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے بس یہ ہی ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اس سے پہلے کہیں دیر نہ ہوجائے کیونکہ جو معاشرے اپنے سماجی تعصابات اور عورتوں سمیت معصوم بچیوں کے بارے میں فرسودہ روایات کے ساتھ زندہ رہتے ہیں وہ عمومی طور پر اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں بعض واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا اخلاقی اور سماجی ڈھانچہ اس حد تک بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے کہ اس میں بڑی تبدیلی کے بغیر کوئی اصلاحی عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا ۔

Hafiz Muhammad Talha Article



حیدرآباد میں اور بھی تفریحی مقامات ہیں۔ او کچھ پہلے تھے۔ ان کا ذکر ہونا چاہئے۔

لکھنے والے کا نام اسی زبان میں ہونا چاہئے جس میں مضمون لکھا گیا ہے۔ 
مناسب پیراگرافنگ بہت ضروری ہے جس طرح سے اب دی ہے۔ 
پارک نہ ہونے کے نقصانات بھی لکھنے چاہئیں۔ بچوں کو کھیلنے کی جگہ نہیں۔ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ تفریح کے لئے ہوٹلنگ کا دھندہ نکل آیا ہے وغیرہ وغیرہ
حیدرآبادمیں تفریحی مقامات کی کمی 

تحریر: حافظ محمد طلحہٰ



تفریحی مقامات ایک ایسا عنصر ہے جو انسانی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے روزمرہ کی زندگی کے مشاغل سے تنگ آکر لوگ ان مقامات کا رخ کر تے ہیں تاکہ ان مقامات کی خوبصورتی اور وہاں کے ماحول سے لطف اندوز ہوں جس کی وجہ سے انکی تھکان دور ہوجاتی ہے اور لوگوں کی زندگیوں میں زندگی کی ایک نئی کرن آجاتی ہے ان تفریحی مقامات میں خاص طور پر وہ حصہ جہاں گھاس لگی ہوئی ہوتی ہے وہ تو بے انتہا انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے یہاں پر صبح صادق کے بعد اکثر بزرگ حضرات چہل قدمی کرنے اور تازہ اکسیجن سے مستفید ہونے کے لئے آتے ہیں جس کی بناء پر وہ اپنے بدن میں سکون محسوس کرتے ہیں ۔ 



اسکے علاوہ سیکڑوں لوگوں کو روزگار کے مواقع انہیں پارکوں یا تفریحی مقامات سے ملتے ہیں جس کے نتیجے میں بے روزگار لوگوں کو بے روزگاری سے چھٹکارہ حاصل ہوتا ہے ۔



حیدرآباد میں صرف 2سے3.سرکاری تفریحی مقام ہیں رانی باغ، قاسم پارک عموماً یہی 2مقام سرفہرست ہیں۔ بد قسمتی سے یہ بھی بد حالی کاشکار ہین کیونکہ ان میں صفائی ستھرائی کا خاص انتظام نہیں اور نہ ہی کو ئی مستورات کے لئے علحیدہ انتظام ہے ۔ ان مقامات کی حالت تو یوں ہے کہ جگہ جگہ گندگی، گنداپانی کچرا وغیر ہ ہے اور غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیاں مختلف جگہوں پر اپنے محبوب کے ساتھ مصروف ہیں جوکہ معاشرے کے لئے ناگزیر ہیں ۔ 



الاٹ شدہ مقامات پر چائنا کٹنگ کا ہونا ، حکومت کاپارکوں کے لئے غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے نہ کرنا ، موجود ہ پارکوں کو وقت پر فنڈکا نہ ملنا ، تفریحی گا ہوں کو ذاتی مفادمیں استعمال کرنا، دفاعی ادارے اور سیاسی جماعتوں کے قبضے ،سکیورٹی کے خاص نظام نہ ہونے کی وجہ سے چرسی ،موالی ، غیر مہذب لوگ وغیرہ، تفریحی گاہوں کی کمی وجہ سے تفریحی تفریبات کا نہ ہونا۔
(حال ہی میں عید الاضحی کے موقع پر دیکھا گیا رانی باغ میں عوام کے ہجوم میں خواتین کے ساتھ بے پردگی اور دھکم دھکا کا منظر سامنے آیا۔ اسکی بڑی وجہ یہ ھے کہ یا تو یہ خواتین خود پرد کرنا نہیں چاہتی اور اپنے بدن کی نمائش کرنا چاہتی ہیں یا ہمارا ماحول انھیں پرد ہ کرنے نہیں دیتا ۔( اس کا پارکوں کوئی تعلق نہیں)
ان تفریحی مقامات کے حالات کو بہتر بنانے کیلئے ٹھیکیڈاری نظام کو ختم کیا جائے اور گورنمنٹ اس نظام کوخود سنبھالے اور اسکے سارے نظام جو کہ بدحالی کی نظرہیں ان پر خصوصی توجہ دیں اور اس کے علاوہ موجودہ حیدرآبادکی آباد ی کے یہ تفریحی مقام بہت کم ہیں گورنمنٹ کو چاہیے جو پہلے سے بنے ہوئے ہیں تفریحی مقام انکو صحیح طریقے سے ہینڈل کرے اور بھی مختلف جگہ پر سرکاری تفریحی مقام بنائیں جائیں تاکہ عوام کو تفریحی مقامات کی کمی کی پریشانیوں سے چھٹکارہ حاصل ہو ۔

ان مقامات کو بنانے کے لیے خصوصی فنڈ مختص کئے جائیں اور ایک سرکاری انتظامیہ کمیٹی بنائی جائے جو نئے ملازمین بھی رکھے اور غلط لوگوں کا صفایا کرے ، اور تفریحی مقام کو بنانے اور صحیح طریقے سے چلانے کا کام کریں ان پر خاص طور پر نگاہ رکھی جائے اور ان سے باز پُرس کی جائے ۔ ہر سال فنڈ میں اضافہ کیا جائے اور نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی کی جائے ۔ جس کے نتیجے میں حیدرآباد کی بڑھتی ہوئی آباد ی کو گھومنے اور سیر و تفریحی مقامات میں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔
ملک کو بہتر بننے کے لیے اہل فکرو دانش ہی ذاتی مفادات اور تعصبات سے بالاتر ہوکر فکر ی بنیاد مہیا کرسکتے ہیں۔