What is ur point? Ur outline does not match with ur article.
Next time send file with proper file name and also write ur name in language in which u are writing.
U filed it after deadline
Next time send file with proper file name and also write ur name in language in which u are writing.
U filed it after deadline
Article
تعلیم یافتہ بمقابلہ ہنر مند
Muhammad Asim Article BS Part-II
Roll No: 2K15/MC/46
سوچا جائے ہمارے ملک کے سائنسدان ، قانون دان، استاد وغیرہ تعلیم کے بجائے ہنر مند بن جاتے تو کیا ہوتا؟ پاکستان دنیا میں بہت کمزور ممالک میں شمار کیا جائے میرے مضمون کا مقصد ہر گز پاکستان کا ہنر مند افراد کی دل ازاری نہیں اور میں اس بات سے بھی واقف ہوا ان کی ضرورت اور اہمیت معاشرے میں کتنی ہوتی ہے لیکن اگر ان ہنر مند افراد کو کوئی اور کام دیا جائے تو اس کام کو نہیں کرسکتے اور کو اپنے ہنر کے علاوہ کوئی اور آتا ہی نہیں ہے جبکہ تعلیم یافتہ افراد زندگی بھر سکتے ہیں رہتے ہیں اور کوئی بھی نیا کام ہو اس باخوبی سکتے ہیں اور با آسانی سے انجام دیتے ہیں،
ہنر مند افراد کا تعلیم کی طرف دھیان اس لیے نہیں ہوتا کینوکہ ان کے تعلیم اخراجات کے لیے پیسہ نہیں ہوتے جس کے ذریعے وہ اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کرسکتے ۔ آئین پاکستان میں بھی ہے کہ حکومت تین سے 16 سال کے بچوں کی بنیاد ی تعلیم کو مفت فراہم کرے گی لیکن جب سرکاری تعلیمی معیار ہی ٹھیک نہ ہو تو والدین اپنی اولاد کیسے سرکاری اسکولوں ، کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجے گی ۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں اکثر والدین اپنی اولاد پرائیوٹ اسکولوں / کالج میں بھیجنے پر مجبور ہیں اور پرائیوٹ اسکولوں /کالج کی فیس بھرنا ان والدین کے لیے شدید معشیت کی وجہ بنتی ہیں اور اکثر غریب والدین اپنی اولاد کو محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں صرف حیدرآباد میں ہی غریب والدین اپنے بچے کو 4سے5 سال کی عمر میں کام پر لگا دیتے ہیں اور تقریباً پاکستان میں 51 لاکھ پڑھنے کے بجائے کام کاج میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے آنے والی قوم بھی محنت مزدوری میں لگ جاتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5 کروڑ 72 ہزار افراد محنت مزدوری کرتے ہیں جو دنیا کی بلند ترین انسانی قوتوں میں سے ایک ہیں اور اس خوائندگی کا تناسب بھی60 فیصد ہیں جوکہ بہت ہی کم ہیں جبک ہر سال 445000 یونیورسٹی گریجوٹ ہوتے 10000 کمپیوٹر سائنس گریجوٹ ہوتے ہیں۔
تعلیم کے لیے خرچ کی جانے والی رقم کا بجٹ 2.1 فیصد ہوتی ہے۔
دیہی علاقوں میں تعلیم نہ ہونے برابر ہیں اور خاص طور پر عورتوں کی تعلیم شرح 20 فیصد ہیں اگر ماں پڑھی لکھی ہوگی تو وہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرسکے گی ۔ بچے کی اصل تربیت اس کے اپنے گھر ہی سے ہوتی ہے وہ جانتی ہوگی تعلیم کی اصل اہمیت کیا ہے نہ کہ وہ اپنی اولاد کو ہنر سیکھنے یا محنت مزدوری کے تعلیم یافتہ نہیں اگر وہ تعلیم یافتہ ہوجائے تو پاکستان کو نہ جانے کتنی ہی اقبال، ڈاکٹر عبد القدر، ڈاکٹر عبد السلام اور کتنے ہی بھٹو مل جائے اس ہمیت چاہیے کہ صرف ہنر مند نہ رہے بلکہ ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہوجائے اور اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچادینے۔
No comments:
Post a Comment