Monday, 19 September 2016

Ahsan Ali - Article



Ur topic is about violence injustice with urban women. U have not specified how it is different from women facing in rural areas? 

Figures u quotes should be with reference from which report etc u have taken. 

What are the basis of this violence in urban areas too? 
There should be some current reference
write ur name etc in urdu also in the file. 
Observe paragraphing.

Name: Ahsan Ali - Article - BS Part-II
Roll No. 2K15-M.C-09
شہری علاقوں میں عورتوں کے ساتھ سلوک
عورت۔۔۔۔عورت۔۔۔۔۔۔عورت۔۔۔۔۔۔۔بری، اچھی ،بے وفا، باوفا ایسی ویسی اورخدا معلوم کیسی کیسی ۔۔۔۔عورت معاشرے میں ایک تبدیلی یا انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ا سلام سے قبل عورت کے ساتھ ظلم و بربریت کی جاتی تھی وہ انکے جاہل ہونے کی علامت تھی لیکن اسلام کے بعد عورت کو اس کا مقام بتلایا گیا اور لوگوں کو اس کی اہمیت بتائی گئی پھر بھی آج جدید اور ترقی یافتہ معاشرے میں عورت کے ساتھ کوئی قابلِ تعریف رویہ اور سلوک برتانہیں جارہا عورت کو ہر دور میں ظلم سے نواز ا گیا آج بھی ہمارے معاشرے میں جاہلانہ رسومات رائج ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد سے عورتوں کے حقوق کے لئے کوئی غیر معمولی اقدامات نہیں کئے گئے قانون تو بناد ئیے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا ہمارے معاشرے میں دو اقسام کی عورتیں ہیں ایک گاؤں دیہات میں رہنے والی اور شہری علاقوں میں بسنے والی ایک عام تاثر ذرائع ابلاغ کی جانب سے دیا جاتا ہے کہ د یہاتی عورت کے ساتھ بہت ظلم ہورہا ہے اور شہری عورت پُر سکون زندگی بسر کرتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی بھی مرد عورت کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سیکھتاخواہ وہ دیہاتی عورت ہو یا شہری سلوک کسی کے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا جارہا پاکستان کے شہری علاقوں میں عورتوں پر تشدداور ظلم کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں اور ان میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے عورت صدیوں سے اپنے تشخص کی تلاش میں سر گرداں ہے۔ عزت کے نام پر قتل، کاروکاری اور ونی جیسی فرسودہ رسومات پر اب بھی زور و شور سے عمل کیا جارہا ہے پارلیمینٹ سے خیرت کے نام پر قتل ہونے سے بچانے کیلئے قانون تو پاس کرالیا گیا لیکن اس کے باوجود بد سلوکی ، زیر حراست تشدد ماورائے عدالت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کی روز افزوں ترقی کی بدولت تمام واقعات عوام کے سامنے پیش ہورہے ہیں اس کے باوجود عورتوں کا استسلال اب بھی جاری ہے خاندان میں تشدد صرف غریب اور جاہل گھرانوں تک محدود نہیں بلکہ پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی بچیوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک برتا جارہا ہے ۔ عورت شادی سے پہلے باپ اور بھائی کی ملکیت ہوتی ہے اور شادی کے بعد شوہر کی ۔70%سے90%عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں صورتحال یہ ہے کہ شہری علاقوں میں ہر دو گھنٹے بعد ایک عورت زیادتی کا شکار ہوتی ہے روزانہ 5عورتیں قتل کردی جاتی ہیں ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010سے 2016کے درمیان 789تیزاب گردی کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں کثیر تعداد کا تعلق لاہور سے ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک اور چشم کشاہے یہ واقعات شہری علاقوں سے زیادہ رپورٹ ہورہے ہیں ۔ حال ہی میں معروف اداکارہ کو بھی تیزاب گردی کا سامنا کرنا پڑا ۔شہری علاقوں میں ان واقعات کی سب سے بڑی وجہ بھی خود ہی عورت ہے ۔گھریلو معاملات ماں بیٹی سے رائے لینے کو اپنی بے عزتی محسوس کرتی ہے اگر لڑکی کا کہیں رشتہ کرانا ہے تو اس سے رائے پوچھنا عیب سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ بات شریعت سے ثابت ہے کہ عورت سے کسی معاملات میں رائے لینے کی ممانعت نہیں ہے جیسا کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کو وحی آئی کہ آپ حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے کردیں لیکن آپ ﷺ نے اس کے باوجود حضرت فاطمہؓ سے اجازت طلب کری کیونکہ عورت کا مقام بتانا تھا عورتوں کو انکے حقوق سورۃ النساء کے مطابق دئیے جائیں اور دیگر مذاہب میں بھی عورتوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے بس یہ ہی ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اس سے پہلے کہیں دیر نہ ہوجائے کیونکہ جو معاشرے اپنے سماجی تعصابات اور عورتوں سمیت معصوم بچیوں کے بارے میں فرسودہ روایات کے ساتھ زندہ رہتے ہیں وہ عمومی طور پر اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں بعض واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا اخلاقی اور سماجی ڈھانچہ اس حد تک بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے کہ اس میں بڑی تبدیلی کے بغیر کوئی اصلاحی عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا ۔

No comments:

Post a Comment