Wednesday, 12 October 2016

ماریہ عائشہ فیچر

Not reporting based 
 No photo
File name is not proper 
 Spelling mistakes


قومی شہراؤں پر ہوٹل
مسافروں کے لئے سہولت یا عزاب
ماریہ عائشہ
فیچر ۔ بی۔ ایس II
رول نمبر: 2K15/MC/37 

ہمارے ہاں ہزاروں کی تعداد میں روزانہ لوگ گاڑیوں کے ذریعے ملک کے کونے سے دوسرے کونے تک کا طویل سفر طے کرتے ہیں کچھ لوگ اس طویل سفر سے لُطُف اندوز ہوکر اپنا ٹائیم پاس کرتے ہیں اور کچھ سفر سے بیذار ہوجاتے ہیں ۔ سڑکوں کی خستہ حالت اور خراب گاڑیوں کے جھٹکوں سے مسافر پہلے ہی بہت تنگ ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہیں آدھے گھنٹے کو گاڑی رو کے تو انسان تازہ دم ہوکر پھر دوبارہ سے روانگی سفر کے لئے تیار ہوجائیں سو میں سے چالیس فیصد گاڑیوں کی کنڈیشن اچھی ہوتی ہے جو کہ ہائے وے پر موجود ہوٹل پر گاڑی روکنے سے پرہیز کرتے ہیں اور ان گاڑیوں کے ڈرائیور کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد مسافروں کو انکی منزل مقصود تک پہنچا سکہیں قومی نوعیت کی شاہراؤں کے چھوٹے بڑے کناروں پر ہوٹل قائم ہیں یہ قایم کرداہ ہوٹل بعڈ اوقات مسافروں کے لئے سہولت بھی ثابت ہوتے ہیں اور کبھی کبھی یہ ہوٹل مسافروں کے لئے عذاب جان بھی ۔ عذاب جان ایسے کہ شہروں میں چلنے والی لوکل گاڑیوں کے ڈرائیور مسافروں کے احتجاج کے باوجود اپنی من پسند ہوٹل پر گاڑی ٹہراتے ہیں اور گھنٹے تک چلنے کا نام نہیں لیتے مسافر حضرات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنی منزل پر پہنچے مگر ڈرائیور صاحب ہوٹل کے خاص کمرے میں جاکر آرام فرمارہے ہوتے ہیں ان پر ہوٹل انتظامیہ نہایت مہربان ہوتے ہیں انہیں اعلی کھانا دیا جاتا ہے اور مفت میں سگریٹ بھی دی جاتی ہے اگر اس خاص کمرے میں کوئی مسافر ان صاحب کو یاد دلانے کے لئے چلا بھی جائے تو اُسے اپنی میٹھی بولی میں چپ کروا دیتے ہیں سڑک کنارے موجود ہوٹلز میں ایشیاء کی قیمت دُگنی ہوتی ہے جیسے کہ خاص دودھ کی جگہ ملک پیک یا پاؤڈر ملک دیا جاتا ہے اور مسافروں کو چائے بھی ملک پیک یا پاؤڈر کی دی جاتی ہی جس کی قیمت 20/- روپے سے 30/- روپے تک ہوتی ہے ۔


چند دن قبل میں نے بمعہ فیملی انڈس ہائیوے پر سفر کیا تو دؤران سفر سہیون بائے پاس پر سالنگی ہوٹل پر گاڑی رُوکی ہوٹل دیکھنے میں اتنا خاص نہ تھا مگر اسکے ریٹس ضرور خاص تھے ہم نے صرف چکن کڑاہی آدھا کلو اور ساتھ ہی چند روٹیاں آرڈر کی کھانے کے فوراً ہی بعد ہوٹل ملازم بل تھمہ کر گیا بل 1300/- روپے تک کا تھا ہم سب کہ کان کھڑے ہوگئے ہوٹل انتظامیہ سے کچھ دیر بحث کرنے کے بعد بھی ہوٹل انتظامیہ نے بل پورا لے کر ہی جان چھوڑی اس وقت یہ حادثہ صرف ہمارے ساتھ ہی پیش نہیں آرہا تھا لیکن آنے والے سارے مسافروں کے ساتھ آرہا تھا وہ بھی اُسے صبر و تحمیل کا مظاہرہ پیش کر رہے تھے جس صبر و شکر سے ہم نے غزارہ کر کے اپنا راستہ پایا۔
شہراؤں پر موجود ان ہوٹلز پر کھانے پینے کی ایشیاء کے دام آسمان سے باتیں کر رہی تھی لیکن ہوٹل انتظامیہ کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ کوئی غریب ہے یا پھر امیر وہ سب مسافروں کو لوٹنے میں مگن تھے ہوٹل کے دال چاول کے دام بھی 200/- روپے تھے تو چکن کے دام تو 500/- روپے تک پہنچے ہونگے کوئی ہے ایسا بندہ جو ان ڈرائیور اور اس کے ساتھیوں پر نظر رکھے ، کوئی ہے جو ہوٹل انتظامیہ کے کھانوں کے دام کا آکے پوچھے ؟

ہمارے ملک کے اعلیٰ صاحبان مہنے میں دو دفعہ تو ضرور ان شہراؤں سے گزرتے ہونگے انکی نظریں ان ہوٹلوں پر پڑتی ہونگی مگر مجال ہے کہ وہ اپنی ائیر کنڈیشن گاڑی سے اتر کر ان ہوٹلوں کے نظام کو دیکھیں نہیں تو یہ لوگ دن رات ناجائز کاروبار فروغ کرتے رہیں گے جس سے ریاستیں چہرہ چمکنے سے حکومت کو چاہئے کہ ایک ایسی کمیٹی مقرر کرے جو ان ہوٹلوں کے نظام کو اچھی طرح نظر رکھے ساتھ ہی ساتھ بس ڈرائیور کو بھی اس کی ذمیداری کا احساس دلائیں ۔ 
ہم کسی کی روزی تو چھینے سے رہے کیونکہ ان ہوٹلوں اور گاڑیوں سے ہمیں سہولت بھی ضرور ہے تو صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کر سکہتے ہیں ہوٹل انتظامیہ کو عقل اور شعور اور دوسروں کا احساس پیدا کر دے نا کہ ہمارا بھی بھلا ہو اور انکا بھی کیونکہ ان ہوٹلوں کی مخالفت نہیں کر سکہتے اب اللہ ہی انہیں نیک ہدایت دے ۔

No comments:

Post a Comment