Tuesday, 11 October 2016

محمد طلحہٰ فیچر


No fulstop no paragraphing 
 Do not use English words 
Quotes of incharge doctor are not relevant 
U should have described the building and over view  /scenario
Intro is weak. 
Some stories and incidents must be part of this feature
It is always reporting based written in interetsting manner 


فیچر


حافظ محمد طلحہٰ
2K15-MC-31
گدو بندر (حیدرآباد کا پاگل خانہ )
گدوبندر ایک دریائی گھاٹ تھا جو کسی زمانے میں سامان تجارت کی درآمد کا مرکز تھا ۔گدوبندر کو غلام شاہ کلہوڑا نے بنوایا تھا غلام شاہ کلہوڑانے گدوبندر اپنے عہد حکومت میں اپنی دربار خاص گدو مل کی زیر نگرانی میں بنوایا تھا اس وقت اسے ٹنڈو گڈو کہا جاتا تھا یہ جگہ لطیف آباد نمبر 3میں واقع ہے بعد میں اسی جگہ ہسپتال قائم ہوا حیدرآباد میں ایشیاء کا پہلا دماغی امراض کا ہسپتال تھا جو 1871 ؁ء میں قائم ہوا اس کا نام "سر کواس جی جہانگیر مینٹل ہسپتال"رکھا گیا۔ مینٹل ہسپتال 690000روپے سرمایہ سے قائم ہوا تھا اور یہ تقریباً 40 ایکڑ کی جگہ پر واقع ہے ہسپتال کی جگہ کامالک سر کواس جی جہانگیر تھااور اس نے یہ زمین وقف کی تھی کہ صرف یہاں مینٹل لوگوں کا علاج مفت ہوگا یہ جگہ وقف کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا جیسے اس کی والدہ اس مرض میں انتقال کر گئیں تھیں اسی طرح دوسرے لوگ اس مرض سے نجات پائیں اور جتنے لوگ یہاں سے شفاء یاب ہونگے اس کا اجر سر کواس جی اور اس کی والدہ کو ملتا رہے گا ۔ بعد میں مختلف حکومتوں کے دور میں مختلف قسم کی توسیع ہوتی رہی اور مختلف قسم کے ایم ۔ایس آتے رہے ۔ بینظر بھٹو کے پہلے دور میں وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ نے 1994 ؁ء میں نرسنگ اسکول کا قیام کیا بعد میں پرویز مشرف کے دور میں 2002 - 2003میں اسے کالج کا درجہ دیا گیا ۔پروفیسر قاضی حیدر علی نے کالج کے تمام کاموں کی نگرانی کی اور اپنے کام کو بخوبی سر انجام دیا انکی یاد میں انکے نام پر ایک آڈیٹوریم ہال بنایا گیا اور یہاں پر LUMHSکا ایک ڈیپارٹمنٹ W11Aبھی بنایا گیا جس میں نفسیات کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے اسکے انچارج معین احمد انصاری صاحب ہیں ہر سال 20سے 25طلبہ کا میرٹ پر اس شعبے میں داخلہ ہوتا ہے ۔یہاں پر ایشیاء بھر سے دماغی مریض لائے جاتے ہیں اور ان کامفت علاج کیا جاتا ہے ابھی اس وقت تقریباً 350ذہنی مریض اس ہسپتال میں زیر علاج ہیں یہاں پر بہت سے ادنیٰ درجے کے دماغی مریض (پاگل )بھی ہیں جو حیدرآباد کے پاگل خانے کی حدود میں کھلے گھومتے رہے ہیں یہاں پر بہت سے سنگین پاگل بھی ہیں جو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں انکا بہت احتیاط سے علاج کیا جاتا ہے علاج کرنے والوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ علاج کے دوران اپنے آپکو ہوشیار رکھیں ۔ایک دفعہ کا واقع ہے کہ میرا دوست ہسپتال اپنے دوست سے ملاقات کرنے گیا اس نے پاگلوں کو کمروں میں بند دیکھا اسی دوران اوپر والے کمرے سے پاگل نے اسے اشارہ کرکے سگریٹ مانگی اس نے کہا کہ کوئی رسّی وغیرہ دو تھوڑی دیر میں چار زابندوں سے بندھی ہوئی رسی آئی اس نے انہیں دو سگریٹ باندھ کر دی پاگل نے اوپر سے اسے لعنت دی اس نے پاگل سے پوچھا لعنت کیوں دے رہے ہو اس نے کہا یہاں چار بندے بر ہنہ ہوگئے اور تم نے صرف دو سگریٹ دی ہیں یعنی جو رسی نیچے آئی تھی وہ دراصل چار زابندوں میں آپس میں باندھنے سے بنی تھی اور اسی طرح کے مختلف واقعات وہاں لوگوں کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں ۔ہسپتال میں علاج کے لئے اعلیٰ قسم کے ڈاکٹر موجود ہیں جو اپنے فرائض کو بخوبی سر انجام دے رہے ہیں وہاں پر جو پاگل علاج کے لئے لائے جاتے ہیں انکی مختلف وجوہات ہوتی ہیں ۔کوئی رشتہ داروں کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، کوئی محبت میں ناکامی کی وجہ سے، کوئی دولت کے نشے میں،کوئی صدمے کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ۔
پاگل خانے میں بہت سی قسم کی فلمیں ، شوٹنگ ، تحقیقاتی رپورٹ بھی بنائی جاتی ہیں یہ پاگل خانہ درحقیقت عوام الناس کے لئے عبرت ہے کہ پاگل اپنے آپ کو پہچان نہیں سکتے اور اچھے برے میں تمیز پیدا نہیں کر سکتے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم خدا کی اس عظیم نعمت کو صحیح طریقے سے استعمال کریں جس طرح استعمال کرنے کا حق ہے ۔

No comments:

Post a Comment