Tuesday 15 November 2016

حافظ محمد طلحہ پروفائل


نام : حافظ محمد طلحہ 

رول نمبر : 2k/15/MC/31
پروفائل : ڈاکٹر لیاقت احمد خان





خالق کو عبادت سے 
مخلوق کو خدمت سے راضی کرو
موجود ہ دور میں اگر ڈاکٹر کی بات کی جگہ تو وہ ہر جگہ قصاب کا کردار اد اکررہے ہیں۔ جتنے بڑے ڈاکٹر کے پاس جائیں وہ اتنے ہی بڑے قصاب ہوتے ہیں لیکن اسے نفسانفسی کے دور میں ہم آپکو ایسے ڈاکٹر سے
ملواتے ہیں جو اب بھی انسانیت کی ہمدری کے لیے کوشاں ہیں اور وہ یہ ہیں۔
ڈاکٹر لیاقت احمد خان تحصیل لطیف آباد ، ضلع حیدرآباد کے ایک غریب گھر انے میں 1952 ؁ء میں پیداہوئے ۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے اپنے اُردو میں حاصل کی ۔ 1968 ؁ء میں دسویں کا امتحان پاس کیا ۔ لیاقت صاحب کے والد بڑھائی کا کام کرتے تھے اور جب وہ دوچار پیسے کماکر لاتے تو انکے گھر کا چولھا جلتا تھا۔ لیاقت صاحب نے گھر یلوحالات کو دیکھتے ہوئے میڑک کے فوراً بعد ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ جاری کیا ۔اور بچوں کو ٹیوشن پڑھنا شروع کیا اور ساتھ ہی کالج میں داخلہ لے لیا اسطرح سے گھر کا انتظام بھی چلتا رہا اور پڑھائی بھی چلتی رہی 1970 ؁ء میں بارویں کا امتحان پاس کیا ۔ امتحان پاس کرتے ہی پرائمری اسکول کالی موری میں پرائمری ٹیجر کی حیثیت سے اپائنٹ ہوئے اور وہاں سے ملازمت کا آغاز کیا اور اور ساتھ ہی میڈیکل یونیورسٹی LUMHSمیں MBBSکے لیے داخلہ لیا۔ صبح کو یونیورسٹی میں پڑھائی کرتے اور وہاں سے آکر شام کو اسکول میں ملازمت کرتے تھے 1975 ؁ء میں MBBSکا امتحان پاس کیا اور اسکے بعد سول ہسپتال میں ایک سال ہاؤس جوب کی اسکے بعد 1977 ؁ء میں شاہ بھئاٹی ہسپتال میں اپائنٹ ہوئے اور وہاں سے انھوں نے لوگوں کی خدمت کا�آغا ز کیا اور اس پیشے میں انھوں نے دل وجان سے لوگوں کی خدمت کی اور ساتھ ہی انھوں نے حیدرآباد میں موجودویلفیئر اداروں کی صدارت بھی کی اور بہت سے جگہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کئے ۔ 2012 ؁ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔آنکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہر ایک کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آتے ہیں جب بھی ان سے علاج کے لیے کوئی مریض مشورہ لیتا ہے تو وہ ساتھ ہی طب نبوی کے مشورے ضرور دیتے یں اسطرح سے وہ علاج کرنے کے ساتھ ساتھ دین کو بھی پھیلا رہے ہیں۔ انھوں نے یہ سارے کام انجام دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنا مقصد حاصل کرنے میں لگے رہے آخر کاروہ آج ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنی زندگی بسرکررہے ہیں اور اپنے نجی کلینک میں آج بھی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور وہ بہت سے غریب مریضوں کا مفت توعلاج کرتے ہیں اور پریشان لوگ اگر اپنے مریض کے علاج کے لیے رات کو انکے گھر سے بھی بلاتے ہیں تو وہ علاج کرنے کے لیے آجاتے ہیں اور کبھی انکار نہیں کرتے اور وہ جس جگہ جانے کا کہتے ہیں وہاں خوشی سے چلے جاتے ہیں وہ اپنی اس زندگی سے تجربہ حاصل کرکے کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں امراض کی کثرت کا یہ حال ہے کہ ہر پاکستانی مختلف امراض کیلئے چار پانچ نسخے نوک زبان پر رکھتا ہے ۔اور عام بیماری سے لیے کر پیچیدہ امراض تک کے بارے میں نہ صرف لب کشائی کرتا ہے بلکہ ان کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ موجودہ امراض کی کثر ت کیوں ہے اور ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں۔ بے عقلی کی چادر نے قوم کی ایسا لپیٹاکہ عقل ماتم کرتی ہوہی نظر آتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کولڈڈرنگ ہر عمر کے افراد کے لیے انتہائی مضرہے ۔لیکن ہم خوشی خوشی بوتلوں کے مزے لیتے ہیں ۔اور اپنے بچوں کو نہ صرف پلاتے ہیں بلکہ ان کی گٹھی میں ڈال کرانہیں عادی بنارہے ہیں کون نہیں جانتا کہ فاسٹ فوڈ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضرہے لیکن ہم معمولی ذائقے کے لیے یہ چیزیں نوش جاں کرتے ہیں۔ اس لیے سادہ اور گھریلوکھانے پینے کی چیزوں کا استعمال رکھا جائے ۔ ایک انگریزی کہاوت ہے کہ انسان اپنی قبر اپنے دانتوں سے کھودتا ہے۔ یعنی وہ ناقص غذا اور بدپرہیزی کے ظاہر ی اسباب کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اس لیے سخت احتیاط اور پرہیز کی ضرورت ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کو شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارے گا تو کبھی پریشان نہیں ہوگااگر چہ وہ بیمار ہویا تندرست ہو۔

No comments:

Post a Comment