Tuesday 15 November 2016

ایرانی بھائی


اس کا لکھنے والا کون ہے؟ رول نمبر کیا ہے؟ 
پروفائل، انٹریو اور فیچر کے ساتھ فوٹو ضروری ہے۔ 
 جس کی وجہ سے پڑھنے کے قابل نہیں رہتا۔ دیکھیں ایک پیرا گراف میں کتنی غلطیاں ہیں؟ بلیو سے مارک کی ہیں۔املا کی بہت ساری غلطیاں ہیں
ٹھیک سے پیراگرافنگ ہونی چاہئے۔ میڈیا میں پیرا گرافنگ بہت ضروری ہے۔

ایرانی بھائی
جواپنے والد کے ساتھ حجرت کر کے اے اس وقت نےٗ ماحول اور نےٗ لوگ انکے والد کو شاید راث نا اےٗ بیمار رھنے لگے اور کئچھ عرصے تک بیمارہوتے تھیک ہوتے اور پھر اس دنیا سے کوچ کر گے۔ایرانی ۶ سال کے تھے یوں انکی تھیک سے دیکھ بھال نا کار سکے جسکا انھیں شادید افسوس ہے مگر تقدیر کے فصلے کون بدل سکے۔بچپن سے ہی ایک ہوٹل پر کام کیاجس میں جاوانی بھی اروج پکڑ چکی تھیِ 
ہوٹل کا نام چوں کے ایرانی تھا اوراپ انکے ملاذم کے ساتھ ایک نیھایت غریب بچا تواپ قریب کے ہوٹلوں پر بھی ان کے کام کرتے رھتے تھے۔واہا کے مالیکا ن کی پو کارنے کے لیے ایرانی ایرانی کی اوازوں نے ہی انھیں ایرانی کانام دیا . جب کے میرا صل نام (نژر خان عباسی) ہے۔.مگر میری اج جو اعدنا سی ہی پیھچان ہے وہ اس ہی ایرانی سے ہے.اور اج واہیں باس سٹاپ پرگاڈریوں کے سامان کی انکی ایک دوکان ہے .جس کے بدولت اج وہ اپنی ذندگی گزا رہیں ہیں۔.فرماتیں ہیں کہ : شوق تو مجھے بھی ھر نوجاوان کی طرح بڑی گاڑیوں میں گھومنے کا تھا مگر حلات نے ایجازات نا دی جس کا کافی عرسے تک مجھے افسوس بھی ہوتا اور دوکھ بھی مگر پھر وقت کے ساتھ سمجھ انے لاگا کے کامی مجھ مامیں نہیں میں بھی ہر نوجاوان کی طرح جس قدر پر جوش اور اومنگوں سے بھرا ہوں اس ہی طرح جیب کا بھی یکسا ہوں بس فرق صرف اتنا کے انکی طرح میرے پاس ایک امیر باپ مویژ نہیں.مگر اس گاڈریوں میں گھومنے کے شوق نے ایک فائدہ دیا کہ کبھی محنت سے جی نہیں چورایا بس اس شوق کو پورا کارنے کے لے محنت کارتا راہا۔اور کیوں کہ محنت کا صلہ دینے کا وعدہ تو رب نے کیا ہے جو اج سب کے سامنے ہے ۔اج ایرانی بھائی کا گلشن زیل پاک سوسائیٹی میں ۰۴۲ گز کا ایک زاتی گھر ہے.اور ایک عدد گاڑی جس میں اب وہ صرف اپنی دوکان جانے اور انے کے استئمال میں لیتے ہیں.میں نے واجہ پوچھی تو با تیا کہ اب شاپ سے اتے اتے شام ھوجاتی اور نظر کامزور ہونے کی واجا سے حادثے سے ہونے والے خرچے اور نقصان کے ڈر سے گھر میں رھنا پسند کرتا ہوں کیوں کے دل کا تھوڑا کنجوس ہوں مگر صرف اپنی زات تک ۔یہا انکا اپنی زات سے مراد یو ہے کیوں کہ ایرانی بھائی ایک بچوں کی فلاح کی تنظیم میں اکثر مالی مدد کرتے نظر اتے ہیں.اس ہی کے ساتھ ساتھ وہ سوسائیٹی میں بھی جب جب ضرورت ہوتی کابھی پیچھے نھی ہٹتے. اس کے علاوا جو شخص اپنی کم عمری اور غریبی کی واجہ سے اپنے باپ تک کو نا باچا ناساکا اج وہ شام میں اکثر بچوں کے چھوٹے بڑے موقابلوں میں حصہ لے کر ا ن میں انعامات تقسیم کرتا ہے۔جس کی وجہ وہ یے بتا تے کہ اس سے یے بچے ایک تو مرے قریب رہتے اورمیں ان میں(جوش،ہمت،محنت،کچھ کر کے دیکھانے کا جزبا بھی فراہم کرتا ہوں)۔ تو میں نے پوچھا کہ ایرانی جی یہ بچوں پر اتنی شفقت کی دین کے احکام کے علاوا کوئی اور خاص واجہ؟ 
ہاں ایک واجہ ہے ایک دافا میرے سیٹھ نے میرے والد سے کہا کہ اپنے لڑکے کو سمجھاو یہ ہمارے گراھکوں سے کبھی کبھی کئچھ بھی مانگ لیتا ہے۔ تو والد نے عرض کیا کہ. جی جی میں سمجھا دنگا کوئی بات نہیں،اسکے جواب میں میرے والد کو سیٹھ نے جس قدر تلخ لھجے میں کہا کہ بچہ کسکا ہے یہ سمجھاوْ.یے سن کر میرے والد کی جو ایک مسکراہٹ یوں ایک لمھے میں شرمندگی میں بدل گیْ وہ میرے دل کو چیر گیْ۔اور میں نے اس دن سے قسم اٹھا لی کہ اب سے کئچھ نہیں مانگنا۔ 
ایرانی بھائی کا نئی نسل کے لیے یے کھنا ہے کہ:میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں مگر کرم ہے رب کا کہ مجھے اج کل ہر نو جوان تعلیم کی راہ میں اپنا سفر کرنے میں مشغول ہے.کوئی ڈاکٹر،اینجینئیر،اور وہ تم کیا کار رہے ھو وہ خبروں والا جی ماس کامیونیکیشن ہاں واہی مطلب ہر کوئی اچھی او ر مخطلف تعلعم حاصل کر ررہا ہے.مگر ان سب کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے صرف مال و دولت کمانا. اپنی تعلیم کو اپنی ذندگی میں شامل نہیں کرتے اور نا اسکو کوئی عملی جامہ پہنا تے ۔تو ان کے لیے یے عرزہے کہ مجھے دکھو میں نے سواے قران پڑہنے کہ کیا سکھا وہ بھی ادھا ادھورا کیوں کہ جب وقت ہی نہیں ملا مگر جو پڑھا اور درس میں سنا اس کو اپنی زندگی میں شامل کیا اور ایک شریف انسان کی زنداگی گزاری .مگر اج کل کہ نوجوان پڑھ کر بھی جھا ہلوں کی طرح غلط کاموں میں ملوث نظر اتے ہیں.جبکہ ایک تعلیم یافتہ انسان کو ہمیشہ اپنی ذات سے فیض یاب کرنا چاہے.اس تعلیم کے زریعے معاشرے کو سدھارناچاہیے اور اپنی تعلیم کو عمل میں لاتے ہوئے ایسی ایجاداد کرنی چاہیں جس سے ملک و قوم کا فائدہ ہو۔

اج معاشرے میں میری تھوری بہت عزت ہے.مگر میں اپنی جھالت کی واجہ سے لوگوں میں بٹھنے سے گریز کرتا ہوں تو میں نہیں چا ہتاکل کو ئی بھی میرے جیسی ذندگی گزانے پر مجبور ہو۔ کیوں کہ مجھ جیسا جاہل انسان گاڑی کے اس جیک کی طرح ہے جو صرف گاڑی خراب ہونے کی صورت میں وقتی تورپرکام اتا۔جب کہ ایک میستری اس مسعلے کو مکمل درست فرما دیتا ۔یو جیک سے بہتر مستری بننا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment