Tuesday 15 November 2016

سید اعجاز علی شاہ


File name is wrong
Do not insertphoto in text file
Profile of Aijaz Ali Shah

(امرہ شیخ ) بی ایس پارٹ 2 ، 2K15 MC 34


نالائق طالب علموں کولائق بنانے کے 
خواہش مند "سید اعجاز علی شاہ"
فضل مسجد سے آگے میر فضل ٹاؤن میں واقع ایک گھر جس کے اِرد گِرد موٹر بائیکس ایسے کھڑی دیکھائی دیتی ہیں جسے اس گھر میں مقیم پر فرد کے پاس دس موٹر بائیکس ہو ۔اس گھر میں جب اندر داخل ہوئے تو دیکھا ایک کمرے میں کتابیں رکھیں بہت اور کچھ طالب علم پڑھ رہے ہیں دوسرے کمرے میں دیکھا تو کمرے میں موجود درمیانی خدامت صاف رنگ بالوں میں سفیدی اور آنکھوں بہ نظر کا چشمہ لگائے ہوئے کرسی پر بیٹھے وہاں بھی کتا بیں موجود تھیں وہ شخص دیکھتے میں ایک لائبر یرین معلوم پڑتے تھے اور وہ گھر ایک لائبریری معلوم ہوتی تھی۔ اور وہاں کھڑی گاڑیاں ان شاگردوں کی تھیں جب وہاں پڑھتے آتے ہیں ۔
وہ لائبریری اعلیٰ سعادت مند خوش مزاج اعلیٰ ظرف کتابوں کے شوقین بر وقت کتابوں سے باتیں کرنے والے کتابیں پڑھنے والے کتابوں میں کھو جانے والے "سید اعجاز علی شاہ کی تھی"۔
لطیف آباد نمبر 11میں پیدا ہوئے اور علامہ اقبال اسکول سے میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج سے انٹر پاس کیا اور پھر قائد اعظم یونیورسٹی سے کیمسٹری میں (ایم ایس سی) کیا ، پھر کراچی یونیورسٹی سے ذولوجی میں دوسرا ( ایم ایس سی) کیا اور پھر سندھ یونیورسٹی جامشورو سے کریمنولوجی میں تیسرا ( ایم ایس سی) کا امتحان پاس کر کے پاکستان کے مختلف محکموں میں اچھے عہدوں پر فائز ہو کر کام کیا ور آج لیبر ڈپارٹمنٹ میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔
سر اعجاز علی کا کہنا ہے کے انہیں اللہ نے قوت دی جوش دیا پڑھنے کا جذبہ دیا کچھ بن کر دیکھانے کا اور آج جو کچھ بھی ہوں صرف اللہ تعالیٰ کا احسان اور والدین کی دعائیں ہیں ۔ سر اعجازعلی کے والد ڑیٹائرپولیس مین تھے نہایت خوش اخلاق اور دوستانہ ماحول رکھتے تھے اور والدہ نہایت مخلص لیکن سخت تھیں آج انکی سختی اور دعاؤں کی بدولت کا میاب ہیں۔
سرکاری نوکری کے علاوہ سر اعجاز علی شاہ ایک ادارہ "سول سروسیس اکیڈمی"چلا رہے ہیں وہ انکے گھر میں ہی موجود ہے اسمیں ہر جماعت کے طالب علم پڑھنے آتے ہیں اس ادارے میں سید اعجاز علی شاہ خصوصی ( سی ایس ایس ) اور بہت مختلف ٹیسٹ کی تیاری کرواتے ہیں ، بچہ بوڑھا بڑا چھوٹا پر شخص انہیں "سراعجازکے نام سے جانتے ہیں "
سر اعجاز علی شاہ کا کہنا ہے کہ "شخصیت چلی جاتی ہے لیکن ادارہ چلتا رہتا ہے" " سر سید احمد خان چلے گئے لیکن علی گڑھ یونیورسٹی ختم نہیں ہوئی آج وہ اسی طر ح چل رہی ہے "حسن علی آفندی نہیں رہے لیکن سندھ مدرستہ الا سلام آج بھی قائم ہے " "علامہ آئی آئی قاضی نہیں ہیں لیکن سندھ یونیورسٹی جامشورو آج بھی قائم ہے "
ادارے چلتا رہنا چاہئے شخصیت تو آئی جاتی رہتی ہیں سول سروسس اکیڈمی میں نے اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے میں تو صرایک زریعہ ہوں۔
سر اعجاز کو کتابیں پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا اتنا شوق کے اپنے گھر لائبریری بنا ڈالی ۔ اس لائبریری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سر اعجاز کو بچپن میں اپنے کسی شعبے سے معطلق چند کتابوں کی سخت ضرورت تھی لیکن وہ کتابیں انہیں کبہیں نہ ملی اس دن انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اتنی کتا بیں اپنے قریب رکھونگا اور میں اپنے گھر میں لائبریری بتاؤ نگا بچوں کو پڑھاؤنگا کوئی بچہ کسی کتاب کے لیئے مارامارا نہ پھرے کتابوں کے لیئے نہ ستر سے کہیں پریشان ہوتا نہ پھرے میں دونگا کتا بیں آج بھی میں فری میں کتابیں پڑھنے کے لیئے دیتا ہوں ۔ سر اعجاز کے اس ادارے میں بہت سے ایسے شاگرد بھی پڑھنے ہیں جوبکل فری میں تعلیم حاصل کر کے کامیابی کی جانب گامزن ہو چکے ہیں سر اعجاز کبھی کسی شاگرد سے فیس کا تقاضہ نہیں کرتے جسکا جتنا مرضی فیس دیتا ہے اور اگر نہیں بھی دیتا تو کوئی مسئلے والی بات نہیں ہوتی ۔ دو سو سے ڈائر طالبہ سول سروسس اکیڈمی میں علم کی روشنی حاصل کر رہے ہیں دن کے تین بچے سے لیکر رات کے گیارہ بچے تک شاگرد آتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔
سر اعجاز حیدرآباد کے نوجوان کے مستقبل کی امید کی کرن ہیں انکی وجہ سے نوجوان اپنی منزل مقصد حاصل کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں ادا کرتے ہیں گے سر اعجاز کی زندگی کا مقصد اپنے نوجوان شاگردوں کو تعلیم دینا اور انکو بپتہ مستقبل فراہم کرنا ہے۔
سر اعجاز کا کہنا ہے کہ "میں کتابوں کے بنا نہیں رہ سکتا "اور ظاہر سی بات ہی کتابیں فری میں نہیں ملتی مجھے پیسوں کی خریدنی ہوتی ہے ۔ لیکن مجھے بہت سی کتابیں تحفے میں ملتی ہیں "سر اعجاز کا کہنا ہے کہ میں فخر محسوس کرتا ہوں اور خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کے میں پاکستان کا وہ واحد شخص ہوں جسے بہت ساری کتابیں تحفے میں ملتی ہیں اور میرے بچوں کو بھی کتابیں پڑھنے کا اتنا ہی شوق ہے جتنا مجھے تھا اور ہے ۔ اور سر اعجاز کی زندگی کے بڑے اہم تجربے وہ ٹریننگ ہیں جو حکومت نے انہیں مختلف اداروں میں دیں وہاں سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا وہاں سے انہوں نے علم وہ آگا بی کی بہت ساری باتیں سیکھی اور وہ انہوں نے اپنے طلبہ تک مستقل کر رہے ہیں ۔
سر اعجاز کا کہنا ہے کہ بچوں کی تربیت میں کتابیں بہت اہم افراد ادا کرتی ہیں ۔ اور میری یہ خواہش ہے کہ پر علاقے میں ایک لائبریری ہونا چاہیئے ۔جسطرح ہم ڈببوگیم کا کاروبار کھول سکھتے حیدرآباد لطیف آباد، قاسم آباد ،ھرآباد کے مقین حضرات اور پڑھتے لکھے لوگوں سے یہ التجاء ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں لائبریری کھولیں تاکہ جسطرح بچے ڈببو گیم پر جاتے ہیں اسطرح بچے کتاب پڑھنے کے لیئے لائبریری جائیں اور
کتاب پڑھیں سمجھے اور کچھ بنتے کا جذبہ اجاگر کریں۔سر اعجاز کا کہنا تھا کہ انکے پاس انتہائی نالائق شاگرد بلکے سب سے زیادہ نالائق شاگرد ہی میرے پاس آتے ہیں اور انکو لائق بنانے میں مجھکو رات دن محنت کرنی پڑتی ہے میری آئی سائڈ بدل جاتی ہیں میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے میرے پاس کبھی کوئی لائق شاگرد نہیں آیا لائق بنانہ پڑتا ہے اور میں چیلنج سے کہتا ہوں پاکستان کے سارے نالائق شاگرد مجھے دے دو میں انکو لائق بنادونگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیت دی ہے سبقہ دیا ہے استقامت دی ہے اور مجھے تمام طریقے پتہ ہیں جس سے نالائق کو لائق بنایا جاتا ہے ۔میں کبھی بھی نہیں کہتا کہ مجھے لائق شاگرد ملے بلکہ میں اللہ سے دُعا کرتا ہوں کہ مجھے کہ مجھے نالائق شاگرد ملیں لوگوں کی دعائیں ہیں اور اللہ نے مجھے اس کام کے لیئے جن چن لیا ہے میں تین بار موت کے منہ سے واپس آیا ہوں میں یہ سمجھتا ہوں میری بقیہ زندگی انسانیت کی خدمت اور نالائق شاگردوں کو لائق بنانے میں صرف ہونی چاہئے جومارے مارے پھر رہے ہیں پریشان پھر رہے ہیں اور اس مصیبت کے دور میں ہیں ہمیں اچھے استاتذہ کی ضرورت ہے جو اچھے اساتذہ کہیں ملتے نہیں۔
جب میرے شاگرد کا میاب ہوتے ہیں تو میرا دل کرتا ہے کہ میں انکے ساتھ خوش ہوتا ہوں رقص کروں ناچوں انکے ساتھ اور کچھ ویڈیو اس بات کی گواہ ہیں کے اپنے شاگردوں کی خوشی میں خوش ہوتا ہوں۔
میری دعا ہے کہ میرا دم کتابیں پڑھتے ہوئے 
نکلے اور بچوں کو تعلیم دیتے ہوئے نکلے۔

No comments:

Post a Comment