Tuesday 15 November 2016

پروفائل : ڈاکٹر سیداحمد علی شاہ

Do not insert photo in the text,
Mind it in inpage BO1 format is its templet not original
Observe proper paragraphing
Also  write personality name on its photo file
See spelling and soem words of language

نام : احسن علی
رول نمبر : 2k/15/MC/09
پروفائل : ڈاکٹر سیداحمد علی شاہ

کمپوڈرسے ڈاکٹر تک کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔

عقابی نگاہیں ،نتواں ناک اور اس پرٹہری عینک ، سرخ سفید رنگت اور علم کی کرنوں سے مغوربلند بخت پیشانی متجسس اور زہانت کا غمناز چہرہ خوش مزاج او رہنس مکھ ایسے کہ عمر سے کئی چھوٹے بھی انہیں اپنا ہم راز بنا لیں اور رعب ودبدبعاایسا کہ بڑے سے بڑا بھی ان کی شخصیت سے مرعوب ہوجائے ۔جنھوں نے 1961میں حیدرآباد کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی اور انہیں شروع سے ہی مختلف پریشانیوں کا سامنا رہا اور اسی کشمکش میں ان کی والد ہ انتقال کرگئی اور وہ مایوس رہنے لگے تھے لیکن پھر انہوں نے ایک ڈاکٹر کے پاس کمپوڈری کی نوکری شروع کردی اور سا تھ ساتھ پڑھنے کا بھی شوق تھا اتفاق یہ ہے کہ انہیں ڈاکٹر ی کا شوق ہوگیا تھا پھر انہوں نے پرائیوٹ انڑمیڈیٹ کیا اور پھر وہ جس ڈاکٹر کے پاس کمپوڈر تھے انہوں نے ان سے آگے تعلیم کے حوالے سے مشورہ کیا اور اپنی مالی حالت بتائی تو اُس ڈاکٹر نے انہیں سرکاری اسالرشپ کے بارے میں آگاہ کیا اور پھر وہ کمپوڈری کے ساتھ ساتھ اسکالرشپ کے امتحان کی تیاری کا آغاز کردیا اور پھر جب انہوں نے امتحان پاس کرلیا تو انہیں سرکار کی طرف سے ڈاؤ یونیورسٹی میں داخلہ دیا گیا ۔اور پھر انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے ڈاکٹری کا آغاز سرکاری ہسپتال سے کیا۔یہ ہیں ڈاکٹر سید آحمد علی شاھ جنہیں صرف حیدرآباد میں ہی نہیں بلکہ وطن عزیز کے معروف حلقے جانتے اور پہچانتے ہیں ۔ ڈاکٹر نہ صرف صاحب اسلوب ، صاحب کردار اور صاحب کتاب انسان ہیں، بلکہ ایسے ڈاکٹر ہیں جو مریض کو دوائی دینے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کا دیرینہ حل بھی بتاتے ہیں اور انہوں نے اس مقدس فریضے کو اس خوبی سے آگے بڑھا یا ہے کہ ان پر عام طور پر فخر کیا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات، ایک نہیں ، بلکہ کئی جوانوں سے اتہائی معتبرو محترم ہے۔وہ نہ صرف ایک ڈاکٹر ہیں، بلکہ ایک مہربان باپ ، مشفق بھائی ، خیال رکھنے والے معلم اور بہترین انسان بھی ہیں ۔اس نفسانفسی کے دورمیں جب ہر شخص کو اپنی پڑی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب سفید لباس میں ملبوس اور ناک پر عینک لگائے ہر وقت مریضوں کے لیے دستیاب ہوتے ہیں اور دیر رات یا جلدصبح کوئی ایمرجنسی آجائے تو اپنے فرض کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور وہ اس معاشرے کی بے حسی پے روتے ہیں جب وہ ڈاکٹروں کی اوقات دیکھتے کہ کسی کی 10سے 12تک اور کسی کی 2سے 4ہے ڈاکٹروں کی جتنی کم اوقات ہوتی ہے وہ اتناہی معتبر اور قابل سمجھا جاتا ہے ۔ مجھے تواس پر مومن خان مومن کا وہ شعر یاد آجاتا ہے کہ:
تہذیب جینے کا سلیقہ ہے سکھاتی 
تعلیم سے جاہل کی جاہلیت نہیں جاتی 
ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کا قیمتی وقت سماجی تعلقات بنانے آرام و سکون کے لیے وقت کرنے یا اہل وعیال کے ساتھ گزارنے کے بجائے ان غریب و نادار مریضوں کے نام کردیا جو بڑے بڑے قصا بوں کا شکار ہوچکے ہیں ہم روز بروز ایوانوں میں صحت کے انقلاب کی گونج توسنتے ہیں لیکن حقیقی صحت کا انقلاب لطیف آباد نمبر 600/2کی لائن کے کونے میں واقع گھر نما میڈیکل سینٹر میں آرہا ہے ۔

No comments:

Post a Comment