Tuesday 15 November 2016

پروفائل- الیاس انجم

I
پروفائل: الیاس انجم
محمد علی

نام انجم ہے کام ہے گردش
یہ ہے افسانہ مختصر میرا
یہ شعر ایک محترم استاد الیاس انجم کا ہے جو ایک شخص ہی نہیں علم کا خزانہ ہے ۔آپ کا نام سید محمد الیاس کنیت ابوالحسن اور شاعری میں تخلص انجم رکھتے ہیں۔آپ نے ۱۹۴۵ ؁میں ضلع میرٹھ تحصیل غازیہ آباد انڈیا میں ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول ٹنڈوالہیار سے پائی دینی تعلیم کے لئے دارولعلوم اسلامیہ اشرفیہ آباد میں حاصل کی پھر لائل پور چلے گئے اور تعلیم مکمل کی ۔آپ نے کراچی سے ۱۹۶۳ ؁ میں ادب عربی کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۶۴ ؁ میں کراچی سے میٹرک کیا اور ۱۹۶۵ ؁ میں گورنمنٹ شیردل خان اسکول کوٹری میں عربی ٹیچر کی حیثیت سے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔
۱۹۶۹ ؁ میں انٹر حیدرآباد بورڈ سے کیا اور ۱۹۷۱ ؁ میں BA سندھ یونیورسٹی سے کیا اور بعد میں ۱۹۷۹ ؁ میںMA عربی کیا۔
استاد کے فرائض ٹنڈوجام ہائی اسکول حیدرآباد جام عربیہ اسکول میں ادا کئے اور ۱۹۸۱ ؁ سے ۲۰۰۵ ؁ تک سندھ کے مشہور و معروف اسکول نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد میں بطورFA اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور وہیں سے ۲۰۰۵ ؁ میں ریٹائیر ہو کر ٹنڈوالہیار میں سکونیت اختیار کی۔
آپ کے شاگرد اس وقت اعلی عہدوں پر فائز ہیں آپ عربی ٹیچر ہونے کے باوجودبہترین کیمسٹری اور دیگر سبجیکٹس پر بھی دسترس رکھتے ہیں کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس کی معلومات آپ کو نہ ہو آپ باوقت ٹیچر ،درزی،گھڑیوں کی مرمت،حکمت اور شاعری میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔
آپ کا کلام اردو،سندھی،انگریزی اور پنجابی زبان میں بھی دیکھا گیا ہے ۔ اردو،سندھی،انگریزی،فارسی،عربی،پنجابی اور سرائیکی زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں۔
پان کھانا اور چائے پینا پسندیدہ شوق ہیں ۔پسندیدہ سبجیکٹ میں میتھامیٹک بتاتے ہیں اور موجودہ دور کے کمپیوٹرز ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔
چلتے ہوئے کتاب پڑھنا ان کا بہترین مشغلہ رہا ہے۔تعلیم پر گفتگو ہوئی تو کہا اب تعلیم کہاں اب تو صرف کاروبار رہ گیا ہے۔نمودونمائش کو ہمیشہ نہ پسند کیا سفید رنگ کا رومال،سفید رنگ کی قمیض،سفید رنگ کا پجامہ اور پیروں میں چپل نورانی چہرہ اور اس پر سفید ڈارھی،سفید بال تمام عمر یہی حلیہ رکھا اور آج بھی ایسی حلیہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آپ کے لفظ ہیں
دو رنگی چھوڑدے یک رنگی ہوجا
سرا سر موم ہو یا سنگ ہو جا
آپ اس وقت بھی اپنے غریب کھانے پر علم کی شمع جلائے ہوئے ہیں جسے ضیاء کی ضرورت ہوتی ہے تلاش کر لیتا ہے۔
جب پاکستانی سیاست پر بات ہوئی تو قبلع استاد نے فرمایا پاکستان کی سیاست کا س نکال دو اور جمہوریت کا ج نکال دو تو پاکستان سدہر سکتا ہے۔
استاد استاد ہوتا ہے اور استاد ایک رہنما ،وکیل،حکیم ہر طرح سے معاشرے کی رہنمائی کرتا ہے آپ نے امامت بھی کی اور حق و صداقت کا سبق بھی پڑھا رہے ہیں۔
شاخ گل پہ جو پھول لگتا ہے
اس کا چہرہ معلول لگتا ہے
سیر گلشن کو آئے تھے لیکن
اب تو سب کچھ فضول لگتا ہے
یہ تھے استاد محترم کی ملاقات کے آخری الفاظ

No comments:

Post a Comment